انتخاب و ترجمہ،سیدحمید الحسن زیدی،الاسوہ فاؤنڈیشن سیتاپور
حوزہ نیوز ایجنسی | امام علی ابن موسیٰ الرضا ؑبعض اقوال کی بنا پر ۱۱ ذیقعدہ ۱۴۸ ھ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے آپ کے والد امام موسیٰ کاظم ؑ تھے اور والدہ کا اسم گرامی ام البنین یا نجمہ تھا۔
آپ کا اسم گرامی علی اور کنیت ابو الحسن تھی القاب رضا، صابر، رضی، وفی، ذکی اور ولی تھے آپ کا سب سے مشہور لقب ’’رضا‘‘ ہے۲٣ذیقعدہ یاماہ صفر کی آخری تاریخ ۲۰۳ ھ شہر طوس کے قریہ سنا باد میں آپ کی شہادت ہوئی اور وہیںدفن کئے گئے۔
آپ کی عمر مبارک پچپن سال تھی ۳۵ سال اپنے والد ماجد کے ہمراہ رہے آپ کی امامت کا زمانہ ۲۰ سال تھا۔ (۱)
امامت کی دلیلیں
پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ امامت کی دلیلوں کودو حصوں پر تقسم کیا جاسکتا ہے:
۱۔ عام دلیلیں یعنی وہ عقلی اور نقلی دلیلیں جو بارہ اماموں میں سے ہر ایک کی امامت پر قائم کی جاسکتی ہیں۔
۲۔ خاص دلیلیں جو ہر امام کے ذریعہ اپنے بعد آنے والے امام کے بارے میں بیان کی جاتی ہیں ہم یہاں پر صرف امام رضاؑ کی امامت سے متعلق دلیلیں بیان کریں گے۔
شیخ مفید نے تحریر کیاہے:
موثق متقی اہل علم و فقہ راویوں میں سے جن لوگوں نے امام رضا ؑکی امامت کے بارے میں آپ کے والد سے روایات نقل کی ہیں یہ افراد ہیں:
داؤد ابن کثیر رقی، محمد ابن اسحق ابن عمار، علی ابن یقطین، نعیم قابوسی، حسین ابن مختار، زیاد ابن مروان مخزومی، داؤد ابن سلیمان، نصر ابن قابوس، داؤد ابن زربی، یزید ابن سلیط اور محمد ابن سنان۔ (۲)
داؤد رقی کا بیان ہے: میںنے امام ابو ابراہیم موسیٰ کاظم ؑسے عرض کیا: میں آپ پر فدا ہو جاؤں میری عمر زیادہ ہوگئی ہے میرا ہاتھ پکڑ کر جہنم کی آگ سے مجھے بچالیں آپ کے بعد ہمارا ولی کون ہوگا؟
امام ؑنے اپنے فرزند ابو الحسن ؑکی طرف اشارہ کر کے فرمایا: یہ میرے بعد تمہارے ولی ہیں۔ (٣)
محمد ابن اسحق سے روایت ہے:
میں نے ابو الحسن اول یعنی امام موسیٰ کاظم ؑ سے عرض کیا: کیا آپ مجھے کسی ایسے شخص کی طرف رہنمائی نہیں کریں گے جس سے میں اپنے دینی مسائل سیکھ سکوں؟
آپ نے فرمایا: یہ میرا بیٹا علی ہے میرے والد میرا ہاتھ پکڑ کر روضۂ رسول کے اندر لے گئے اور فرمایا۔ خداوند عالم نے فرمایا ہے : { انی جاعل فی الارض خلیفہ} اگر خدا نے وعدہ کیا ہے
تو وہ اپنے وعدہ پر عمل کرے گا(۴)
حسین ابن نعیم صحاف سے روایت ہے: میں، ہشام ابن حکم اور علی ابن یقطین بغداد میں تھے علی ابن یقطین نے کہا: میں عبد صالح کی خدمت میں تھا آپ نے مجھ سے فرمایا۔ اے علی ابن یقطین یہ علی میری اولاد کے سردار ہیں میںنے اپنی کنیت ان کو عطا کی ہے ۔
ایک دوسری روایت کے مطابق آپ نے فرمایا: کہ میں نے اپنی کتابیں ان کو عطا کی ہیں اس وقت ہشام نے اپنا ہاتھ اپنی پیشانی پر مار کر کہا اے علی وائے ہو تم پر تم یہ کیسے کہہ رہے ہو؟
علی ابن یقطین نے عرض کیا: خدا کی قسم میں نے جس طرح سنا تھا بیان کردیا۔
ہشام نے کہا: پس اپنے والد موسیٰ ابن جعفر ؑکے بعد یہی امام ہوں گے۔ (٥)
نعیم قابوسی کا بیان ہے: ابو الحسن موسیٰؑ نے فرمایا، میرا بیٹا علی میری اولاد میں سب سے بڑا، سب سے محترم اور سب سے زیادہ محبوب ہے وہ میرے ساتھ جفر دیکھتا ہے جب کہ پیغمبرؐ یا وصی پیغمبرؐ کے علاوہ جفر کوئی نہیںدیکھ سکتا۔ (٦)
حسین ابن مختار کا کہنا ہے: امام ابو الحسن موسیٰ کاظم ؑ جب قیدخانہ میں مقید تھے میرے پاس آپ کے خطوط آئے کہ میرے بڑے بیٹے کو میرا عہد اور میری وصیت یہ ہے کہ وہ میرا فلاں فلاں عمل انجام دے اور فلاں شخص اس کو کوئی نقصان نہیں پہونچا سکتا جب تک میری تم سے ملاقات ہو یا مجھے موت آجائے۔ (۷)
زیاد ابن مروان قندی سے روایت ہے: میں ابو ابراہیم ؑکی خدمت میں حاضر ہوا جس وقت ان
کے فرزند ابو الحسن امام رضا ؑبھی وہاں موجود تھے۔
آپ نے فرمایا: یہ میرا فلاں بیٹا ہے ان کی تحریر میری تحریر ان کا کلام میرا کلام ہے اور ان کا نمائندہ میرا نمائندہ ہے یہ جو کچھ کہیں وہ میرا ہی قول ہے۔ (۸)
مخزومی جن کی والدہ جعفر ابن ابیطالب کی نسل سے تھیں بیان کرتے ہیں: ابو الحسن موسیٰؑ نے ہم کو جمع کیا اور فرمایا: کہ کیا تمہیں معلوم ہے میں نے تم کو یہاں کیوں جمع کیا ہے؟
میں نے کہا: نہیں!
آپ نے فرمایا: تم لوگ گواہ رہنا کہ میرا یہ بیٹا میرا وصی، قائم مقام اور میرا جانشین ہے جس کا میرے ذمہ کوئی حق ہو وہ ان سے لے لے۔
میں نے جس سے جو وعدہ کیا ہے وہ میرے وعدوں پر عمل کرے جو مجھ سے ملاقات کرنے پر مجبور ہو ان کی تحریر اور مشورہ کے ساتھ ملاقات کے لئے آئے۔ (۹)
داؤد ابن سلیمان کا بیان ہے : میں نے ابوابراہیم ؑسے عرض کیا کہ مجھے خوف ہے کہ کوئی حادثہ رونما ہو جائے اور آپ سے ملاقات نہ ہو آپ مجھے بتادیں کہ آپ کے بعد امام کون ہے؟
آپ نے فرمایا: میرا فلاں بیٹا یعنی ابوالحسن (امام علی رضا ؑ)۔ (١۰)
نصر ابن قابوس کا بیان ہے: میں نے ابو ابراہیم امام موسیٰ کاظم ؑسے عرض کیا : میں نے آپ کے والد سے سوال کیا کہ آپ کے بعد امام کون ہے انھوں نے آپ کواپنے بعد امام بتایا جب آپ کے والد کی شہادت ہوگئی تو امام کے انتخاب کے لئے لوگ ادھر ادھر جانے لگے لیکن میں نے اور
میرے اصحاب نے آپ کی امامت کو قبول کیا۔ اب آپ فرمائیے کہ آپ کے بعد کون امام ہوگا؟ آپ نے فرمایا: میرا فلاں بیٹا۔ (١۱)
داؤد ابن زربی کا کہنا ہے: میں امام ابو ابراہیمؑ کی خدمت میں کچھ اموال لیکر پہونچا آپ نے بعض کو قبول کر لیا اور بعض کو قبول نہیں کیا۔
میںنے عرض کیا: آپ نے بعض اموال کو قبول کیوں نہیں کیا؟ اور میرے پاس کیوں چھوڑ دیا۔
آپ نے فرمایا: ان کا ولی (امام) خود تم سے ان چیزوں کا مطالبہ کرے گا۔
آپ کی وفات کے بعد ابو الحسن الرضا ؑنے میرے پاس ایک شخص کو بھیجا اور ان اموال کا مطالبہ کیا میںنے وہ اموال آپ کے حوالہ کر دیئے۔ (١۲)
یزید ابن سلیط نے ایک طویل حدیث کے ذیل میںبیان کیا کہ ابو ابراہیم نے جس سال آپ کی شہادت ہونے والی تھی مجھ سے فرمایا: میں اس سال گرفتار ہو کر قید خانہ چلا جاؤں گا اس وقت امر امامت میرے بیٹے کی طرف منتقل ہو جائے گا جو علی اور علی کا ہمنام ہے پہلے علی ابن ابی طالب ؑہیں دوسرے علی، علی ابن الحسین ؑہیں میرے بیٹے نے پہلے علی سے فہم ،حلم، ورع ، ذکر اور دین میراث میں پایا ہے اور دوسرے علی سے انھیں مصائب میں مبتلا ہونا میراث میں ملا ہے۔ (١٣)
محمد ابن سلیمان ابن فضل ہاشمی کا کہنا ہے : میں ابو الحسن موسیٰ ابن جعفر ؑکی خدمت میں حاضر ہوا جب آپ سخت بیمار تھے میں نے عرض کیا اگر خدا نخواستہ کوئی حادثہ پیش آجائے تو ہم کس کی طرف رجوع کریں؟
آپ نے فرمایا: میرے بیٹے علی کی طرف ان کی تحریر میری تحریر ہے اور وہ میرے وصی اور جانشین ہیں۔ (١۴)
عبد اللہ ابن مرحوم کا بیان ہے: میں بصرہ سے نکلا اور مدینہ کی طرف چلا راستہ میں حضرت ابوابراہیم امام موسیٰ کاظم ؑسے ملاقات ہوئی جو بصرہ کی طرف جا رہے تھے آپ نے کچھ خطوط میرے حوالہ کئے اور فرمایا یہ خطوط مدینہ جاکر میرے بیٹے علی ؑکے حوالہ کر دینا وہ میرا وصی قائم مقام اور میرا بہترین فرزند ہے۔ (١٥)
محمد ابن زید ہاشمی کا بیان ہے کہ اب شیعوں کی ذمہ داری ہے کہ علی ابن موسیٰؑ کو اپنا امام مانیں میں نے عرض کیا کیوں؟ اس نے کہا اس لئے کہ ابو الحسن ابن جعفر ؑنے ان کو اپنا وصی قرار دیا ہے۔ (١٦)
حیدر ابن ایوب کا بیان ہے: میں مدینہ میں قبا کی سرزمین پر تھا محمد ابن زید ابن علی بھی تھے لیکن وہ مجھ سے دیر میں پہونچے تھے میں نے عرض کیا، میں آپ پر فدا ہو جاؤں کیوں اتنی دیر میں پہونچے فرمایا: ابو ابراہیم امام موسیٰ کاظم ؑنے مجھے اولاد علی و فاطمہؑ کی ایک جماعت کے ساتھ بلایا تھا ہم سب اٹھارہ افراد تھے آپ نے ہم سے فرمایا، تم لوگ گواہ رہنا کہ میں نے اپنے فرزند علی کو اپنی زندگی اور موت کے بعد اپنا وصی اور وکیل قرار دیا ہے لہٰذا ان کا حکم نافذ ہوگا۔
اس کے بعد محمد ابن زید نے کہا: کہ خدا کی قسم شیعہ موسیٰ ابن جعفر ؑکے بعد ان کے فرزند علی کو اپنا امام قرار دیں گے۔
حیدر نے عرض کیا: خدا موسیٰ ابن جعفر ؑ کو طول عمر عطا فرمائے لیکن تم یہ کہاں سے کہہ رہے ہو؟
محمد ابن زید نے کہا: جس وقت امام موسیٰ ابن جعفر ؑنے علی کو اپنا وصی معین کیا اسی وقت امامت بھی ان کے حوالہ کردی۔
علی ابن حکم کا کہنا ہے: کہ اس کے بعد باوجود حیدر اس حال میں دنیا سے گیا کہ اسے علی ابن موسیٰؑ کی امامت میں شک تھا۔ (١۷)
عبد الرحمن ابن حجاج کا بیان ہے: ابو الحسن موسی ؑنے اپنے فرزند علی ؑ کے بارے میں وصیت فرمائی اوراس سلسلہ میں ایک نامہ لکھ کر مدینہ کے بزرگ افراد کو گواہ بنایا۔ (١۸)
حسن ابن علی ابن خزاز کا کہناہے: میں مکہ کی زیارت کے لئے نکلا علی ابن ابو حمزہ بھی ہمارے ساتھ تھے اور ان کے ساتھ کچھ اموال اور کھانے پینے کا سامان بھی تھا میں نے ان سے پوچھا کہ یہ اموال کہاں لے جارہے ہو؟
انھوں نے کہا: یہ اموال عبد صالح سے متعلق ہیں اور ان کا حکم ہے کہ انھیں ان کے فرزند علی ؑ کو دیدوں آپ نے ان کو اپنا وصی قرار دیا ہے۔ (١۹)
جعفر ابن خلف کا بیان ہے: میں نے ابو الحسن موسیٰ ابن جعفر ؑسے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: خوشبخت ہے جو اپنی موت سے پہلے اپنا جانشین دیکھ لے خداوند عالم نے میرے بیٹے علی رضاؑ کو وصی کی صورت میں مجھے دکھا دیا ہے۔ (۲۰)
موسیٰ ابن بکر کا بیان ہے :میں ابو ابراہیم امام موسیٰ کاظم ؑکی خدمت میں تھا آپ نے فرمایا، امام جعفر صادق ؑفرماتے تھے کہ خوش بخت ہے وہ جو موت سے پہلے اپنا جانشین دیکھ لے اس کے بعد آپ نے اپنے فرزند علی ؑ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا خداوند عالم نے انھیں میرے جانشین کی صورت میں مجھے دکھا دیاہے۔ (۲۱)
ابن فضال کا بیان ہے: میں نے علی ابن جعفر ؑسے سنا آپ نے فرمایا، میں اپنے بھائی موسیٰ ابن جعفر ؑکے پاس تھا خدا کی قسم وہ اپنے باپ کے بعد روی زمین پر خدا کی حجت تھے اس وقت ان کے فرزند علی داخل ہوئے موسیٰ ابن جعفر ؑنے مجھ سے کہا اے علی ابن جعفر یہ آپ کے ولی ہیںیہ میرے لئے ویسے ہی ہیں جیسا میں اپنے والد کے لئے تھا خدا آپ کواپنی نیت میں ثابت قدم رکھے۔
میں رونے لگا اور سوچا کہ میرے بھائی موسیٰ اپنی موت کی خبر دے رہے ہیںتو آپ نے فرمایا، اے علی ؑ خداوند عالم نے جو کچھ مقدر فرمایا ہے وہ ہوکر رہے گا رسول خداؐ ،حضرت علی ؑ ،فاطمہ زہراؑ، امام حسن اور امام حسین ؑہمارے لئے نمونہ ہوں گے۔
امام موسیٰ ابن جعفرؑ نے یہ سب دوبارہ ہارون کے ذریعہ طلب کئے جانے سے تین دن پہلے فرمایا تھا۔ (۲۲)
امام علی ابن موسیٰ رضا ؑکی امامت کے سلسلہ میں دوسری احادیث بھی موجود ہیں جو حدیث کی کتابوں میں درج ہیں ہم اختصار کے پیش نظر اتنے ہی پر اکتفا کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ آپ کی طرف بہت سے معجزات بھی منسوب ہیں جو احادیث کی کتابوں میں ذکر ہوئے ہیںآپ کی امامت کو ثابت کرنے کے لئے ان سے مدد لی جاسکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے
(۱)الارشاد، ج۲، ص۲۴۷؛ بحار الانوار، ج۴۹، ص۲و ۳و ۲۹۳؛ الفصول المہمہ، ص۲۲۶؛ کافی، ج۱، ص۴۸۶؛ تاریعقوبی، ج۲، ص۴۵۳
(۲)الارشاد، ج۲، ص۲۴۷
(٣)الارشاد، ج۲، ص۲۴۸،؛ الفصول المہمہ، ص۲۵۵
(۴)الارشاد، ج۲، ص۲۴۸
(٥)الارشاد، ج۲، ص۲۴۹
(٦)الارشاد، ج۲، ص۲۴۹
(۷)الارشاد، ج۲، ص۲۴۹
(۸)الارشاد، ج۲، ص۲۵۰؛ الصول المہمہ، ص۲۲۶
(۹)الارشاد، ج۲، ص۲۵۰، الفصول المہمہ، ص۲۲۶
(١۰)الارشاد، ج۲، ص۲۵۱
(۱١)الارشاد، ج۲، ص ۲۵۱
(١۲)الارشاد، ج۲، ص ۲۵۱
(١٣)الارشاد، ج۲، ص ۲۵۲
(١۴)کشف الغمہ، ج۳، ص۸۸
(١٥)بحار الانوار، ج۴۹، ص۱۵
(١٦)بحار الانوار، ج۴۹، ص۱۶
(١۷)بحار الانوار، ج۴۹، ص۱۶
(١۸)بحار الانوار، ج۴۹، ص۱۷
(١۹)بحار الانوار، ج۴۹، ص۱۷
(۲۰)بحار الانوار، ج۴۹، ص۱۸
(۲۱)بحارالانوار ج۴۹ ص ۲۶
(۲۲) بحار الانوار ج ۴۹ ص ۲۶
جاری ہے
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔